اپنی سرداری کا معیار تو رکھ لیتے تم
کم سے کم جبہ و دستار تو رکھ لیتے تم
تن مرا دھوپ سے جل جل کے بھنا جاتا ہے
گھر میں اک سایۂ دیوار تو رکھ لیتے تم
تیرے ہر وار سے جو بارہاں بچتا میں رہا
ایسے حالات میں تلوار تو رکھ لیتے تم
تم نے زنداں میں بھی قیدی کو کھلے عام رکھا
ہائے مجرم کو سزا وار تو رکھ لیتے تم
میری شہ رگ پہ جو خنجر چلا صدمہ یہ نہیں
ہاتھ میں ظلم کی رفتار تو رکھ لیتے تم
نقش خود عالمِ ہستی میں پرو دیتا میں
میرے ہاتھوں پہ وہ رخسار تو رکھ لیتے تم
تیر جب ساگرِ بے جاں میں اتارا ہے تو پھر
میرے زخموں کو نمک زار تو رکھ لیتے تم

25