اپنی سرداری کا معیار تو رکھ لیتے تم |
کم سے کم جبہ و دستار تو رکھ لیتے تم |
تن مرا دھوپ سے جل جل کے بھنا جاتا ہے |
گھر میں اک سایۂ دیوار تو رکھ لیتے تم |
تیرے ہر وار سے جو بارہاں بچتا میں رہا |
ایسے حالات میں تلوار تو رکھ لیتے تم |
تم نے زنداں میں بھی قیدی کو کھلے عام رکھا |
ہائے مجرم کو سزا وار تو رکھ لیتے تم |
میری شہ رگ پہ جو خنجر چلا صدمہ یہ نہیں |
ہاتھ میں ظلم کی رفتار تو رکھ لیتے تم |
نقش خود عالمِ ہستی میں پرو دیتا میں |
میرے ہاتھوں پہ وہ رخسار تو رکھ لیتے تم |
تیر جب ساگرِ بے جاں میں اتارا ہے تو پھر |
میرے زخموں کو نمک زار تو رکھ لیتے تم |
معلومات