جو تیرے ساتھ ہوئے تیرے ہمسفر ٹھہرے
دلِ جہاں میں وہی لوگ معتبر ٹھہرے
حلال ہم نے کمایا ہے صرف نفعِ عشق
جبھی تو رشتے مرے سارے مختصر ٹھہرے
پسند جن کی سے ہر شے کو گھر میں بھر ڈالا
مکیں وہی نہ کسی آن میرے گھر ٹھہرے
وہ اپنے کوچۂ بستی سے لوٹ آنے پر
گلی گلی میں تمہاری یوں در بدر ٹھہرے
اٹھے ہی رہ گئے خوشیوں پہ جن کی ہاتھ مرے
وہ میری ساری دعاؤں سے با خبر ٹھہرے
بساطِ دولتِ قارون یہ رکھی جس نے
خدا کی آنکھ میں وہ لوگ بے اثر ٹھہرے
میں خواب خواب سجاتا گیا یہ دل اپنا
اسی امید میں اک روز وہ نظر ٹھہرے

7