اس سفر کی بھری مسافت میں
معجزہ کب ہوا محبت میں
دے دیا اپنی جان کا درپن
اپنے محبوب کو عنایت میں
صورتِ نظم لکھ دیا تجھ کو
زندگانی کی ہر حکایت میں
صرف تجھ سے طلب کیا تجھ کو
اور کیا ہے مری شکایت میں
ٹوٹ جائے اگر اسے چھو لوں
اس سا دیکھا نہیں نفاست میں
آج پھر چھیڑ دو صنم مجھ کو
اپنی اس دہکتی شرارت میں
چھوڑ ساگر امید کا دامن
کام آیا وہ کب ضرورت میں

0
4