شکوے لبوں پہ غم کے سمیٹے چلے گئے |
آئے تھے تیرے شہر بکھرتے چلے گئے |
ایسی اداس شام میں نکلے تھے گھر سے ہم |
رہنے جہاں میں آئے تھے مرتے چلے گئے |
کیسی کلا تھی ہاتھ میں ان کے کیا کہیں ؟ |
کنکر کے زخم تھے کہ نکھرتے چلے گئے |
ظالم تھا اس کے شہر کا دستور بھی بہت |
بے جرم و بے خطا پہ برستے چلے گئے |
رسمِ وفا کے آئنے ٹوٹے ملے مجھے |
سب دوست باری باری بچھڑتے چلے گئے |
بھاری تھا قد سے عمرِ رواں مجھ پہ تیرا بوجھ |
ہم تھوڑے تھوڑے تجھ سے گزرتے چلے گئے |
جینے کا ڈھنگ خود کو سکھاتے بھی تو کیا |
ہم ساری عمر تم کو ترستے چلے گئے |
آیا جو نامِ عشق تو ساگر لرز گئے |
بیمار ہو کے اور بھی پڑتے چلے گئے |
معلومات