کچھ رقیبوں سے ملا کچھ مرے پیاروں سے ملا
رنج جتنا بھی ملا مجھ کو وہ یاروں سے ملا
ایک میرے لیے تھیں بند وہ باہیں اس کی
جو مجھے چھوڑ کے بستی میں ہزاروں سے ملا
کہہ کے سورج یہ سمندر میں کہیں ڈوب گیا
کوئی ساگر کبھی دریا کے کناروں سے ملا
ان خزاؤں نے ستایا نہیں اتنا بھی مجھے
جتنا دکھ مجھ کو محبت کی بہاروں سے ملا
کب بھلا راہ میں چمکا مرے جگنو کوئی
کب بھلا رستہ مجھے گھر کا ستاروں سے ملا
آگ اور پانی رہیں ساتھ یہ ممکن ہی نہیں
نہ محبت کو تو نفرت کے شراروں سے ملا
منظرِ شام ہو اور پیار کی دھن بجتی ہو
تو کسی روز مجھے ایسے نظاروں سے ملا
آج دیکھا ہے بہت دیر فلک کو ساگر
کیا مری روح کو آرام ستاروں سے ملا

0
4