اک بے بسی سی سامنے آنکھوں کے چھا گئی |
جاتے ہوئے چراغ وہ گھر کے بجھا گئی |
وہ کائناتِ عشق و عدم کا وجود تھی |
دھرتی سے آسماں کی کشش میں سما گئی |
ایسی سپاہ ناک تھی شعلوں کی تاب تھی |
مقتل میں آگ پھونک کے جنگل جلا گئی |
آئی تھی ایک شورشِ طوفان کی طرح |
دل کی اجاڑ بستیاں ساری بہا گئی |
دل میں نہ روشنی نہ کتابوں میں پھول ہیں |
عنوان زندگی کے وہ سارے مٹا گئی |
سمجھے گا کون ہجرِ مسلسل کے درد کو |
ایسی کسک کہ خون کے آنسو رلا گئی |
شیشہ نما تھے چور وہ صدمے تھے کرچیاں |
اے زندگی گلو میں تو کیسے چبھا گئی |
راتوں سے کیا کہ دن سے بھی آنے لگا ہے خوف |
جب سے وہ دل کو صورتِ کھنڈر بنا گئی |
مردہ دلوں میں حسرتِ زندہ کی لاش تھی |
جاگی ہوئی تھیں دھڑکنیں وہ تھپ تھپا گئی |
چہرہ ملالِ زرد ہے سینہ فگارِ دشت |
یادوں کی دھوپ پھیل کے آنگن میں آ گئی |
ساگر کھڑا ہوا ہوں دہانے پہ موت کے |
پیغامِ مرگ مجھ کو گھڑی وہ سنا گئی |
معلومات