آنکھوں میں آنسوؤں کے کنارے نہیں رہے |
افسوس تیرے عشق کے مارے نہیں رہے |
کیسی خلش سے بھرنے لگا ہے یہ دل مرا |
وحشت کے ساتھ میرے گزارے نہیں رہے |
صحرا بدل رہے ہیں حدِ شہر میں سبھی |
تنہائیوں کے بھی وہ سہارے نہیں رہے |
کل شب بہت صدا دی کسی اپنے کو میں نے |
ایسا لگا کہ جیسے وہ پیارے نہیں رہے |
آنسو پیے ہیں اتنے کہ اب پیاس بھی نہیں |
ہونٹوں پہ اب سراب کے دھارے نہیں رہے |
اجڑے درخت تجھ کو سنائیں گے یہ خبر |
پتوں پہ کیسے رنگ ہمارے نہیں رہے |
جینا ہی چھوڑ ڈالا ہے ساگر نے تیرے بعد |
تیرے وجود کے جو اشارے نہیں رہے |
معلومات