| آنکھیں چھلک رہی ہیں ترے انتظار میں |
| مدھم ہے میری سانس بہت کوئے یار میں |
| بس جو قسم اٹھا گیا تھا تیرے سر کی میں |
| وہ قول اب نبھا رہا ہوں انکسار میں |
| دیکھوں تو میرا چاند بھی سورج بھی ہو تمہیں |
| اور کچھ نہیں ہے گردشِ لیل و نہار میں |
| کانٹوں پہ الجھی تتلیاں کیسے بچاؤں میں |
| دھنسی ہوئی ہے سانس مری خود یہ خار میں |
| لفظوں کو روک لیتا ہے کیوں بات تھام کر |
| کیسا تضاد ہے ترے قول و قرار میں |
| باتوں میں جو یہ اٹھ رہا ہے اس قدر دھواں |
| رکھتا ہے آگ وہ مرے سینہ فشار میں |
| لمحوں میں آسمان مرے سر پہ آ گرا |
| چل پھر رہا تھا میں تو یونہی رہگزار میں |
| وابستگی ہے ان سے مگر اتنی بھی نہیں |
| قائم ذرا ہے دوستی خوئے وقار میں |
| کس طرح رنگِ شبنمی چہرہ بدل گیا |
| کیا حادثہ ہوا یہاں بادِ بہار میں |
| زخمی بدن بھی دیکھ کے غمگیں نہیں ہوا |
| اخلاق مر گئے ہیں مرے غمگسار میں |
| گلشن کے کاروبار کا سودا نہیں ہوا |
| اب وہ چمک دمک نہیں ہے برگ و بار میں |
| ساگر ازل سے ہوں سفرِ تشنہ کام میں |
| سوکھی پڑی ہے جھیل لبِ آبشار میں |
معلومات