| یوں اب کہ لہرا کے شمشیرِ عام لوں گا میں |
| عدو سے فیصلہ ہے انتقام لوں گا میں |
| میں ناخنوں سے کھرچ کے ترے بدن کا لہو |
| گو موجِ دوش پہ مستِ خرام لوں گا میں |
| مٹا کے اپنی انا دشمنانِ جاں سے میں |
| قرارِ قتل سے پہلے سلام لوں گا میں |
| وفا سے دور جہاں کے گھمنڈی لوگوں سے |
| عنایتوں میں کیا احترام لوں گا میں |
| نگاہ کی تری آرائشوں نے پاگل کیا |
| کہ اب نہ ان سے کوئی بھی کلام لوں گا میں |
| اسے ہے شوق کہ خنجر سے مجھ پہ وار کرے |
| یہ میری ضد ہے بدن پہ نیام لوں گا میں |
| رقم کروں گا کوئی کربلا میں پھر ساگر |
| ہدف میں پہلے یزیدی خیام لوں گا میں |
معلومات