| اب سوچتا ہوں جسم کے بے جان شہر میں |
| آیا تھا کس لیے کسی انجان شہر میں |
| عاشق کسی کی جان پہ یہ روح ہو گئی |
| مفلس ہے اب بدن مرا ویران شہر میں |
| سرگوشیوں کی چادروں میں سو گیا جہان |
| سنتا ہوں اپنی چیخ میں سنسان شہر میں |
| فرقت حماقتوں کی سواری پہ ہے سوار |
| عقلوں کو قفل لگ گیا گنجان شہر میں |
| رہزن نے چھین کے مرا رختِ سفر کہا |
| لوٹا ہے اک عجب سر و سامان شہر میں |
| جتنے بھی لوگ مجھ کو ملے سب خدا ملے |
| کوئی نہیں تھا ایک بھی انسان شہر میں |
| سورج اگا ہوا تھا مرے پور پور میں |
| آتش سے ہو گیا تھا میں شمشان شہر میں |
| تارے جھلس رہے تھے شبِ غم کے عرش پر |
| تھا دور تک نہ چاند کا امکان شہر میں |
| کس عاجزی سے کھو دیا ساگر نے سب یہاں |
| کتنا ہوا ہے گہرا یہ نقصان شہر میں |
معلومات