| پتھر کا آئنہ یوں بنانے کا شوق تھا |
| ہر سنگ اس کے ہاتھ سے کھانے کا شوق تھا |
| آنکھیں کیے ہوئے ہوں جو رنگین خون سے |
| دل کو کسی پہ اشک بہانے کا شوق تھا |
| اے زندگی یہ میری تمنا بھی تھی کبھی |
| دلہن کبھی ہمیں بھی سجانے کا شوق تھا |
| قسمت کہ رنگِ خوں سے مرے ہاتھ رچ گئے |
| ورنہ حنا سے ہاتھ رچانے کا شوق تھا |
| گھر جو بسا رہے ہیں پرندے یہ شوق سے |
| یوں گھر کبھی ہمیں بھی بسانے کا شوق تھا |
| جیسے ستا رہا ہے تو مجھ کو اے دورِ عشق |
| ہم کو بھی یُوں کسی کو ستانے کا شوق تھا |
| اس کی سہیلیوں سے وہ ملنا اسی کے سنگ |
| پھر داستاں بھی سب کو سنانے کا شوق تھا |
| وہ دن جوانیوں کے وہ بربادیوں کے پل |
| ہر لمحہ لمحہ خود کو گنوانے کا شوق تھا |
| ساگر جو اس قدر میں یہ برباد حال ہوں |
| مجھ کو کسی کے ناز اٹھانے کا شوق تھا |
معلومات