شہرِ فنکار میں ان چہروں پہ چہرے رکھنا
کتنا آسان ہوا دل میں یہ دھوکے رکھنا
دیکھ کر جلوۂ آدم ہوئے اوسان خطا
کارِ ابلیس پہ مشکل ہوا سجدے رکھنا
جا بجا بکھرا ہوا ہے مرے دردوں کا وجود
کانچ کے جسم پہ پاؤں ذرا دھیرے رکھنا
حسن تو بکتا ہے بازار میں دولت کے عوض
غربتِ عشق میں ممکن نہیں جذبے رکھنا
جان جاؤ گے قدر کیا ہیں وفا کے موتی
دلِ درویش کے پہلو میں یہ ہیرے رکھنا
چل بھی پڑتے ہیں یہی وقتِ مصیبت میں کبھی
جتنے بھی کھوٹے ہیں سنبھال کے سکے رکھنا
میں نے اک عمر کیا عشق کے منکر سے جہاد
کھا گئے روح کو وہ ہار کے صدمے رکھنا
رات دن جس کی یہ فرقت میں گزارے میں نے
میری اس ہیر کو بھائے کئی رانجھے رکھنا
چپ ہوں اس بات پہ ساگر کہ تماشا نہ بنے
کھود کے فائدہ کیا پھر گڑے مدعے رکھنا

0
1