| درندگی وہی خبطِ نیام میں ہے ابھی |
| ادائے مقتلِ شمشیر کام میں ہے ابھی |
| سبوئے رمز و قناعت پہ کر لیا سودا |
| مگر وہ تشنگی آسودہ جام میں ہے ابھی |
| سحر کی آنکھ میں کاجل کی وہ حسیں پرتیں |
| کہاں وہ جلوہ کسی سرخ شام میں ہے ابھی |
| اے یادِ موجِ خیالی اے میری دردِ شمیم |
| خزاں کا داغ مرے سبز فام میں ہے ابھی |
| نگاہِ حسرتِ لذت سے ہوں بہت محروم |
| کہ رشکِ طور مرا زیرِ دام میں ہے ابھی |
| ابھی بھی جیسے اداسی میں ناچتی ہو تو |
| صدا کوئی مرے افسردہ بام میں ہے ابھی |
| نہیں یہ دھڑکنیں رک سکنا تو نہیں ممکن |
| مگر یہ دل سرِ سجدہ سلام میں ہے ابھی |
| بھلے زباں پہ ہیں پہرے سکوت کے لیکن |
| نگہ مگر مری گہرے کلام میں ہے ابھی |
| کبھی تھی دو دلوں کے بیچ گفتگو ساگر |
| وہ بات آج جو مشہورِ عام میں ہے ابھی |
معلومات