درندگی وہی خبطِ نیام میں ہے ابھی
ادائے مقتلِ شمشیر کام میں ہے ابھی
سبوئے رمز و قناعت پہ کر لیا سودا
مگر وہ تشنگی آسودہ جام میں ہے ابھی
سحر کی آنکھ میں کاجل کی وہ حسیں پرتیں
کہاں وہ جلوہ کسی سرخ شام میں ہے ابھی
اے یادِ موجِ خیالی اے میری دردِ شمیم
خزاں کا داغ مرے سبز فام میں ہے ابھی
نگاہِ حسرتِ لذت سے ہوں بہت محروم
کہ رشکِ طور مرا زیرِ دام میں ہے ابھی
ابھی بھی جیسے اداسی میں ناچتی ہو تو
صدا کوئی مرے افسردہ بام میں ہے ابھی
نہیں یہ دھڑکنیں رک سکنا تو نہیں ممکن
مگر یہ دل سرِ سجدہ سلام میں ہے ابھی
بھلے زباں پہ ہیں پہرے سکوت کے لیکن
نگہ مگر مری گہرے کلام میں ہے ابھی
کبھی تھی دو دلوں کے بیچ گفتگو ساگر
وہ بات آج جو مشہورِ عام میں ہے ابھی

26