سنسارِ جسم سے کسی پل لوٹ جائیں گے
دشوار ہیں کہ ہو کے سہل لوٹ جائیں گے
دھرتی سے خاک چنتے ہیں قبرِ فشار کو
ہو جائے کام آج کہ کل لوٹ جائیں گے
چٹان پختہ قائم و دائم ہے اپنی جا
ہونے دو مجھ کو خستہ و شل لوٹ جائیں گے
رہتی نہیں سدا یہ بہاروں کی رونقیں
ہائے یہ پر جواں سے کنول لوٹ جائیں گے
یہ اونچے پربتوں سے ملاتے ہوئے نظر
ٹوٹے گا قہر تو یہ محل لوٹ جائیں گے
دردِ غزالِ دشت پہ جو گزری دشت میں
لکھ کے یہ زندگی کی غزل لوٹ جائیں گے
اس سر خجستہ جاں کو سرِ دار آنے دو
ذہنوں سے پھر یہ سارے خلل لوٹ جائیں گے
دیکھی ہے کل کے خواب میں اک لاشِ بے ضرر
وحشت سے چور ماہِ اجل لوٹ جائیں گے
خنجر کا وار کر گیا آسان موت کو
اب جلد ہے کہ اہلِ ازل لوٹ جائیں گے
درکار ہووے تیشۂ فرہاد سنگ کو
آغوشِ زن سے چپ کے حمل لوٹ جائیں گے
ساگر پہ ہنس ہنس کے تقدیر کہتی ہے
اے شخصِ نا گزیر یہ پل لوٹ جائیں گے

39