ضبطِ پیہم سے میں آنسو کو پیے جاتا ہوں
زخم جو بھی لگے پھر اس کو سئے جاتا ہوں
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے سر جھکتا ہے
ایک کعبہ ہے جسے سجدہ کیے جاتا ہوں
ایک فطرت سے بھی معصوم طبیعت ہے مری
اس پہ یہ داغ محبت کے لیے جاتا ہوں
خواب میں بھی ہو جسے ملنا بہت ناممکن
اس کی حسرت میں کئی خواب جئے جاتا ہوں
اے برستی ہوئی منہ زور ہواوں سن لو
ان درختوں کو سہارے میں دیئے جاتا ہوں
تم پہ سیکھا ہے فقط دل نے دھڑکنا ساگر
کاٹ کے طشتری میں تم کو دیئے جاتا ہوں

47