ضبطِ پیہم سے میں آنسو کو پیے جاتا ہوں
زخم جو بھی لگے پھر اس کو سئے جاتا ہوں
ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے سر جھکتا ہے
ایک کعبہ ہے جسے سجدہ کیے جاتا ہوں
اک طبیعت سے بھی معصومۂ فطرت ہوں میں
اس پہ یہ داغ محبت کے لیے جاتا ہوں
خواب میں بھی ہو جسے ملنا بہت ناممکن
اس کی فرقت کے کئی خواب جئے جاتا ہوں
اے برستی ہوئی منہ زور ہواوں سن لو
ان درختوں کو سہارے میں دیئے جاتا ہوں
تم پہ سیکھا ہے فقط اس نے دھڑکنا ساگر
کاٹ کے طشتری میں دل میں دیئے جاتا ہوں

38