| سکھا دے عشق تو کانٹوں پہ چل بھی سکتا ہوں |
| تو چاہے تو تری خاطر بدل بھی سکتا ہوں |
| جہاں نے موم سے پتھر بنا دیا مجھ کو |
| ہے تیری چاہ سے ممکن پگھل بھی سکتا ہوں |
| مجھے جو نیک فرشتہ سمجھ لیا تم نے |
| میں آدمی ہوں کسی پل مچل بھی سکتا ہوں |
| زمیں کو میری بنا دو اگر جو سورج تم |
| ہوا ہوں سرد میں آتش میں ڈھل بھی سکتا ہوں |
| یہ تاب اپنی لگائے رکھو مری جی سے |
| میں تھک گیا تو کہیں اور نکل بھی سکتا ہوں |
| دھرا رکھو یہ صراحی سے جام ہونٹوں پر |
| نشے سے چور ہوں گرچہ سنبھل بھی سکتا ہوں |
| نہیں ہے قیمتِ جذبات کچھ مرے آگے |
| وفا ہو سچی اگر تو میں ٹل بھی سکتا ہوں |
| میں آفتاب نہیں پر ترے لیے ساگر |
| تمام عمر محبت میں جل بھی سکتا ہوں |
معلومات