تمام عمر کسے یہ ملال رہتا ہے |
جو مرتی آنکھوں میں پرنم سوال رہتا ہے |
غموں کو عکسِ تبسم سے باندھنے کے لیے |
سدا یہ آئنہ بھی خوش جمال رہتا ہے |
پرندے اپنے پروں کو سہم کے کھولتے ہیں |
کہیں عقاب کہیں خوفِ جال رہتا ہے |
خزاؤں کو بھی یہ غنچے نئی غزل دیں گے |
وہ جن کے سینوں میں غم بے مثال رہتا ہے |
ادھورا چاند بھی لگتا ہے بے قرار بہت |
کہیں پہ زخم تسلسل سے لال رہتا ہے |
اتر کے سوچ کے دریا میں پڑھ لے جو موجیں |
کہاں کسی کو کسی کا خیال رہتا ہے |
لہو بھرے مرے منہ سے نکل رہے ہیں لفظ |
اثر سے زہر کے اب تک ابال رہتا ہے |
بدن پہ گردِ سفر پیروں میں تھکاوٹ ہے |
یہ سلسلہ سرِ منزل بحال رہتا ہے |
شبِ فراق ہو ساگر کہ وصلِ شب کی گھڑی |
کہیں بھی ہوں سوئے غم اعتدال رہتا ہے |
معلومات