تمام عمر کسے یہ ملال رہتا ہے
جو مرتی آنکھوں میں پرنم سوال رہتا ہے
غموں کو عکسِ تبسم سے باندھنے کے لیے
سدا یہ آئنہ بھی خوش جمال رہتا ہے
پرندے اپنے پروں کو سہم کے کھولتے ہیں
کہیں عقاب کہیں خوفِ جال رہتا ہے
خزاؤں کو بھی یہ غنچے نئی غزل دیں گے
وہ جن کے سینوں میں غم بے مثال رہتا ہے
ادھورا چاند بھی لگتا ہے بے قرار بہت
کہیں پہ زخم تسلسل سے لال رہتا ہے
اتر کے سوچ کے دریا میں پڑھ لے جو موجیں
کہاں کسی کو کسی کا خیال رہتا ہے
لہو بھرے مرے منہ سے نکل رہے ہیں لفظ
اثر سے زہر کے اب تک ابال رہتا ہے
بدن پہ گردِ سفر پیروں میں تھکاوٹ ہے
یہ سلسلہ سرِ منزل بحال رہتا ہے
شبِ فراق ہو ساگر کہ وصلِ شب کی گھڑی
کہیں بھی ہوں سوئے غم اعتدال رہتا ہے

42