جلا چراغ ہواؤں میں چھوڑ آیا ہوں
میں دشتِ ہجر پہ دریا کو موڑ آیا ہوں
نہ دکھ سکی مجھے باریکیاں نگاہوں سے
سجا کے ایک حسیں خواب توڑ آیا ہوں
ندی بھنور سے چھلک کے جو آنکھ سے ٹپکی
پلک جھپک کے میں لہروں کو موڑ آیا ہوں
گواہ مجھ پہ ہے ماہِ تمام کا وہ چاند
میں ایک جھیل میں آنکھوں کو پھوڑ آیا ہوں
اب اس پہ ہے کہ وہ کیا راہ لے مری جانب
وفا کے نام میں ہاتھوں کو جوڑ آیا ہوں
بساطِ عشق الٹنے چلا تھا میں ساگر
لہو میں اپنے بدن کا نچوڑ آیا ہوں

39