صلیب دو مجھے یا پتھروں کے وار کرو
کہ پھر کوئی بھی ہو ستم بے اختیار کرو
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
بھلے مجھے کسی نیزے پہ اب سوار کرو
سپرد اب کسی ظالم کے ہاتھ میں کر دو
یا اپنے ہاتھوں سے پھر مجھ کو سوگوار کرو
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
کہ میرے جسم کا مقتل ہوا ہے چھلنی بہت
کہیں پہ سر ہے کہیں میرے خواب کا لاشہ
کہیں ہے میرا تماشا کہیں مری آشا
جو میرے عشق کا قاتل ہے لہو کا پیاسا
اسی کے سامنے ہے سر نگو دلاسہ
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
کہ جس کو کھیل ملا خوں سے ہاتھ دھونے کا
کسی بھی طور وہ میرا نہیں ہے ہونے کا
ہوا کے نام ہوا میں بھی شہرِ بدنام ہوا
چراغِ رونقِ بستی مرا بھی نام ہوا
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
نہیں تھا پہلے بھی اب بھی نہیں رہوں گا میں
یہی ہے دکھ کہ تمہارا یہ دکھ سہوں گا میں
بلا کا نوش تھا پہلے بھی اب بھی پیوں گا میں
وجود کیا ہے کہ ہے مرنے کی کوئی کوشش
یہ سوچتا ہوں کہ اب خود کشی کروں گا میں
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
کہ دور تک کوئی ایک اجڑی بستی ہے
یہاں کے سایہ و پرتو میں ایک ہستی ہے
یہاں نہ شام و سحر ہے نہ رات دن کا سخن
یہاں عجب ہے عذابوں کا سلسلہ ہر دم
یہ شہرِ ہجر ہے یہ شہرِ عاشقانِ نم
یہاں نہ دل نہ کوئی دم نہ کوئی پیچ و خم
فضائے شورِ حوادث ہے اور غم ہی غم
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
جو وادیِ سرِ رونق ہے میرے اس دل میں
دھنک ترنگ کبھی رنگ ہے کبھی بو ہے
ہے آرزو کی وہ تتلی جو میری جستجو ہے
وہ عالمِ سرِ نا ممکنات کی خو ہے
نہ روبرو مرے ہو کر بھی میرے چار سو ہے
وہ میرے باغ کا ایسا کوئی پرندہ ہے
کہ جس کے نالوں میں میری زباں پہ یہ ھو ہے
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
وہ دھوپ ہے تو میں اتری ہوئی کوئی چھاؤں
بھلا کہاں سے میں وہ تاب زندگی میں لاؤں
وہ لمسِ زندگی ہے تو میں خستہ مادہ ہوں
میں اس کے وعدوں کا ٹوٹا ہوا ارادہ ہوں
وہ شوق باز ہے شوقین پتھروں کا بہت
تو میں کلی ادا نازک سا آئنہ ہوں کوئی
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
غزل کیا ہے مری دسترس ہے اردو پر
نہیں ہے شوقِ رفاقت ہے غم کے جادو پر
بھلا نہ مانیو تم کیا ہے شاعری میری
میں کہہ رہا ہوں ہنر ہے یہ بات کہنے کا
غزل بھی ایک ہنر تو ہے بات کہنے کا
ہنر ہے کوئی قیامت کا اور سہولت کا
کہیں کسی سے محبت کہیں حقارت ہے
کہیں ہے سنگِ ملامت کہیں عبادت ہے
کہیں ہے رنگِ تعصب کہیں پہ چاہت ہے
کہیں پہ الجھنیں ہیں تو کہیں شفاعت ہے
کسی کو دردِ تمنا کسی کو راحت ہے
کہیں جنوں ہے کہیں بے شمار نفرت ہے
کہیں ہے جون کہیں میر کی حکایت ہے
ہنر ہے کوئی قیامت کا اور سہولت کا
ہنر کی تیغ کوئی اب میں بھی چلاؤں گا
تمہیں میں شاعری کی آگ میں جلاؤں گا
ہیں اشک بار سے سیلاب تر مری آنکھیں
تمہیں بھی جذبہِ ساگر میں اب بہاؤں گا
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا
کہ ایک نوحہ تو نوکِ زباں پہ لاؤں گا

21