پیاسوں کے کارواں کو اپنی طلب رکھنے دو |
پیکرِ جسم کے صندل پہ یہ لب رکھنے دو |
روحِ ناشاد پہ اک جسمِ برہنہ لے کر |
آج تم وصلِ قیامت کا غضب رکھنے دو |
دل میں الجھے ہوئے ہیں یاد کے گیسو اب تک |
مجھ کو اے بادِ صبا دردِ عجب رکھنے دو |
اڑ گیا جانے کہاں ریت کا ذرہ ذرہ |
موجِ مدہوش ہوا کچھ تو سبب رکھنے دو |
عمرِ آوارگی میں راہِ جنوں کی خاطر |
درمیاں خود کے مرا جوشِ طرب رکھنے دو |
زیرِ احساس مرے درد کی لو تیز کرو |
ان کے پہلو میں غمِ آفتِ شب رکھنے دو |
حضرتِ جون کے قدموں میں مجھے بھی ساگر |
اپنی غزلوں کا یہ دیوانِ ادب رکھنے دو |
معلومات