وادئ موت میں سے گزرتے تو دیکھیے
دردوں کے آئنے میں سنورتے تو دیکھیے
الہاقِ جاں سے بستئ جاناں تلک مجھے
زخموں سے چور چور ابھرتے تو دیکھیے
خستہ بدن کی چیخ سے لرزاں ہوئی صلیب
اپنے مسیح کو ذرا مرتے تو دیکھیے
بیٹھا نہ جو کبھی مری شہ رگ کے بھی قریں
ایسے خدا کو آپ نکھرتے تو دیکھیے
آثارِ تن پہ سیرتِ ہندہ کی رہبری
اس جانِ تیغ و جان کو کرتے تو دیکھیے
ہے پیچ و تاب آہنی دیوار سی کھڑی
اور اس کے پیچھے عشق کو مرتے تو دیکھیے
جوگن کا جوگ جوگیوں کا روگ ہو گئی
تہذیبِ زندگی کو بکھرتے تو دیکھیے
کانٹے کی جب نظر لگی ساگر جو پھول کو
غنچے کو اب کلی پہ ترستے تو دیکھیے

32