| آؤ آزادئ فرقت کو ہوا دیتے ہیں |
| کر کے اک دوسرے سے عشق بھلا دیتے ہیں |
| ساتھ پھر چلتے ہیں اس دشت کے ویرانے میں |
| پھر سے ہم دونوں کہیں خود کو گنوا دیتے ہیں |
| تم مرے لفظ کو کاٹو میں تمہاری باتیں |
| آج اس حد پہ محبت کو سزا دیتے ہیں |
| وصل کرتے ہیں کوئی ہجر کی ہم پھر سے نظر |
| آؤ ہم آج اذیت کو تھکا دیتے ہیں |
| شاخِ امید پہ بیٹھے ہوئے پنچھی سارے |
| اپنے ہاتھوں سے چلو دونوں اڑا دیتے ہیں |
| بات بے بات جو کرتے ہیں یہ شکوہ ہم تم |
| آؤ اک بار یہ دنیا ہی مٹا دیتے ہیں |
| اپنے جو عہدِ وفا پر تھے وہ سب خط ساگر |
| چل کے ہم دونوں کہیں ان کو جلا دیتے ہیں |
معلومات