زمیں پہ ہوں میں مگر آفتاب کی خواہش
ہے میرے دل میں کسی انقلاب کی خواہش
تری ادا پہ نزاکت پہ ہار سکتا ہوں
کہ مجھ کو ہونے لگی ہے عذاب کی خواہش
ہزار چہرے مرے سامنے بھی آ جائیں
رہے مگر ترے ہی انتخاب کی خواہش
اگرچہ پھول مجھے سوگوار کرتے ہیں
مگر ہے پھر بھی مجھے اک گلاب کی خواہش
کھلا رہا ہوں میں اپنا بھی رزق لوگوں کو
ہے جانے دل کو مرے کس ثواب کی خواہش
شجر کو ٹوٹتے پھولوں کی زندگی کے لیے
ہے سانس لیتی ہوئی اک کتاب کی خواہش
سکوتِ دشت کے ساگر فشار چشموں سے
ہے میرے اس دلِ ناداں کو آب کی خواہش

0
4