زمیں پہ ہوں میں مگر آفتاب کی خواہش |
ہے میرے دل میں کسی انقلاب کی خواہش |
تری ادا پہ نزاکت پہ ہار سکتا ہوں |
کہ مجھ کو ہونے لگی ہے عذاب کی خواہش |
ہزار چہرے مرے سامنے بھی آ جائیں |
رہے مگر ترے ہی انتخاب کی خواہش |
اگرچہ پھول مجھے سوگوار کرتے ہیں |
مگر ہے پھر بھی مجھے اک گلاب کی خواہش |
کھلا رہا ہوں میں اپنا بھی رزق لوگوں کو |
ہے جانے دل کو مرے کس ثواب کی خواہش |
شجر کو ٹوٹتے پھولوں کی زندگی کے لیے |
ہے سانس لیتی ہوئی اک کتاب کی خواہش |
سکوتِ دشت کے ساگر فشار چشموں سے |
ہے میرے اس دلِ ناداں کو آب کی خواہش |
معلومات