| گرے جو آنکھ سے آنسو تو دھو نہیں سکتا |
| کمال یہ کہ میں دن رات رو نہیں سکتا |
| عجب ہے سلسلہ میرا بھی اِس محبت کا |
| کرم وہ مجھ پہ کرے یہ بھی ہو نہیں سکتا |
| ہے میرے پاس فقط درد، درد بھی اُس کا |
| یہ تحفہ میں کسی صورت بھی کھو نہیں سکتا |
| مرے دیار سے نہ جا اے چاندنی تو کہیں |
| کہ آج ہے شبِ فُرقت میں سو نہیں سکتا |
| بکھر گئی یوں مری زندگی کی مالا بھی |
| اب ان میں کوئی بھی خواہش پرو نہیں سکتا |
| ادھورے خواب کی نگری ہے چشمِ نم ساگر |
| میں ان میں اب کوئی تعبیر بو نہیں سکتا |
معلومات