گرے جو آنکھ سے آنسو تو دھو نہیں سکتا
کمال یہ کہ میں دن رات رو نہیں سکتا
عجب ہے سلسلہ میرا بھی اِس محبت کا
کرم وہ مجھ پہ کرے یہ بھی ہو نہیں سکتا
ہے میرے پاس فقط درد، درد بھی اُس کا
یہ تحفہ میں کسی صورت بھی کھو نہیں سکتا
مرے دیار سے نہ جا اے چاندنی تو کہیں
کہ آج ہے شبِ فُرقت میں سو نہیں سکتا
بکھر گئی یوں مری زندگی کی مالا بھی
اب ان میں کوئی بھی خواہش پرو نہیں سکتا
ادھورے خواب کی نگری ہے چشمِ نم ساگر
میں ان میں اب کوئی تعبیر بو نہیں سکتا

32