زخم سے خون پیا ہے تم نے
صرف رنجیدہ کیا ہے تم نے
باعثِ عشق ہنر کو میرے
مجھ سے بس چھین لیا ہے تم نے
جیسے جیتے ہیں محبت والے
ایک لمحہ بھی جیا ہے تم نے
اپنے نازک سے لبوں سے مجھ کو
زہر ہی زہر دیا ہے تم نے
کر کے ان آئنوں کو چکنا چور
سنگ ہاتھوں میں لیا ہے تم نے
اکتفا ترکِ وفا پہ کر کے
کیا مرا زخم سیا ہے تم نے
قلبِ بے بس کو مرے یوں ساگر
اس قدر درد دیا ہے تم نے

17