بت بنتے ہیں ہزاروں انساں کوئی بنائے
ترکیب جینے کی دے پھر عشق بھی سکھائے
صحرا سے جو صدا آئے شورِ لیلیٰ کی تو
پھر کیوں نہ دوڑ کے ننگے پاؤں مجنوں جائے
کہتا ہوں جس کے مکھڑے کو ماہتاب اکثر
ہے آرزو کہ شب بھر وہ چاند جگمگائے
امید رکھ تو بیٹھا مٹی کے مادھو سے میں
پھر یہ گلہ بھی کرتا ہوں میرے کام آئے
ذروں پہ کانچ کے میں چلتے پہنچ گیا ہوں
اس سے کہو قدم کچھ وہ اپنے بھی اٹھائے
تقسیم ہو گئے ٹکڑے میرے غم کے ساگر
دل میں ہے شورِ یومِ عاشور ہائے ہائے

46