| بت بنتے ہیں ہزاروں انساں کوئی بنائے |
| ترکیب جینے کی دے پھر عشق بھی سکھائے |
| صحرا سے جو صدا آئے شورِ لیلیٰ کی تو |
| پھر کیوں نہ دوڑ کے ننگے پاؤں مجنوں جائے |
| کہتا ہوں جس کے مکھڑے کو ماہتاب اکثر |
| ہے آرزو کہ شب بھر وہ چاند جگمگائے |
| امید رکھ تو بیٹھا مٹی کے مادھو سے میں |
| پھر یہ گلہ بھی کرتا ہوں میرے کام آئے |
| ذروں پہ کانچ کے میں چلتے پہنچ گیا ہوں |
| اس سے کہو قدم کچھ وہ اپنے بھی اٹھائے |
| تقسیم ہو گئے ٹکڑے میرے غم کے ساگر |
| دل میں ہے شورِ یومِ عاشور ہائے ہائے |
معلومات