چراغ کون یہاں چپکے سے جلاتا ہے
دھواں دھواں مری حسرت کا جگمگاتا ہے
پسند جس کو نہیں تھی یہ شاعری میری
وہ آج میری ہی غزلوں کو گنگناتا ہے
زوالِ شام کے جیسے محبتوں کا نور
کرن کی طرح نکلتا ہے ڈوب جاتا ہے
یہ کس کا عکس ہے معدوم آئنوں میں مرے
ہزار بار چھڑاؤں تو لوٹ آتا ہے
کبھی یہ چاند کا منظر قریب سے دیکھو
ندی میں پیاس بجھانے کو تلملاتا ہے
وہاں پہ رات کی رانی کا ذکر ہوتا ہے
یہاں یہ دل مرا خوشبو سے جگمگاتا ہے
خراب حال ہے بس یہ حسین چہرے کا
تباہ روح کو بارِ دگر تپاتا ہے
بہارِ یادِ گلستاں کا پرتوِ موسم
خیالِ شبنمی میں موجِ گل کھلاتا ہے
گلہ ہے مجھ کو مصور سے کائنات کے یہ
فضول عشق کی تصویر کیوں بناتا ہے
سوال کر رہی تھیں اک فقیر کی آنکھیں
زمانہ یہ مجھے کیوں دیکھ مسکراتا ہے
وہ جس سے سلسلہ تعبیر کا نہیں ساگر
وہ خواب خواب سی جنت تو کیوں سجاتا ہے

0
4