کتنا دشوار ہے آنکھوں کو چراتے رہنا
بیٹھنا محفلوں میں درد چھپاتے رہنا
روٹھنے والے تو یوں روٹھ کے سو جاتے ہیں
ان کا عمرِ رواں ماتم یہ مناتے رہنا
نغمہ و رنجشِ بے حالِ دلِ مضطر کا
سوزِ تنہائی میں یہ ساز بجاتے رہنا
رات بھر یوں کسی کی یاد میں جلتے رہنا
گہری خاموشیوں میں خود کو سلاتے رہنا
زرد پتوں میں سوا رنگِ اداسی کیا ہے
سب کو محرومیوں کا پاس دلاتے رہنا
بیٹھنا شام کبھی درد کے میخانے میں
تیری حسرت کی سحر دل سے مٹاتے رہنا
گردشِ دردِ تغافل سے اٹے سناٹے
دیکھ کر وحشتوں سے خوف یہ کھاتے رہنا
دور رہ کر ترے احساس کے چلمن کی کمی
پاس رہ کر تری قربت کا ستاتے رہنا
آہ بھرنا کبھی دستک پہ کبھی وحشت میں
دوڑ کے گرنا کبھی خود کو اٹھاتے رہنا
ہجر کی بندشوں میں چیختے لمحوں کو بھی
سخت مشکل میں بھی آسان بناتے رہنا
دردِ پیہم میں بھی رکھنا یوں لبوں پر مسکان
روتی آنکھوں کو بھی ساگر یوں ہنساتے رہنا

28