وقت کے قاعدے قانون سکھاتے جاؤ
بس یہی سر سری سا ساتھ نبھاتے جاؤ
اب کہ پوچھے گا زمانہ جو تمہارے بارے
کیا کہوں گا مجھے اے یار بتاتے جاؤ
غیر سے ہو نہ عقیدت مجھے پھر تیرے بعد
میرے افکار کی ہر سوچ جلاتے جاؤ
یہ پرندے بھی سدھارے ہوئے ہیں تیرے ہی
ان کو بھی تم مرے آنگن سے اڑاتے جاؤ
رہ نہ جائے کوئی امید کی جلتی سی لو
میرے کمرے سے چراغوں کو بجھاتے جاؤ
گوشۂ چشم میں آنسو رہے مدت یارو
یہ مری آنکھیں سمندر میں بہاتے جاؤ
سوزِ دل دردِ گدازِ سرِ صدمہ پہ جفا
نالۂ ہجر پہ کچھ دھاک بٹھاتے جاؤ
تیری تشفیع کا اتنا تو کرم ہو ساگر
میرے مرنے پہ مرا سوگ مناتے جاؤ

27