راہِ مصیبتاں میں اچکتے چلے چلو
منزل کی ہے تلاش تو چلتے چلے چلو
سازش یہ کر رہی ہے فضا لوٹ جائیں ہم
اے کاروانِ مستوں ابھرتے چلے چلو
پاؤ گے ہوش بے خودی کے درمیاں میں تم
پیو یہ جامِ عاشقی مرتے چلے چلو
صحرا کو یہ پیام دو وہ خود کو تھام لے
دریاؤں کی قسم ہے امڈتے چلے چلو
درپیش فکرو آ گہی کی روشنی ملے
اے فکرِ کم نگہ چلو بڑھتے چلے چلو
ثابت کرو یہ حوصلے شمشیر کی طرح
تم خنجرِ طلب پہ خوں بھرتے چلے چلو
بے جان ظلمتوں کے سبھی پتلے توڑ دو
ظالم کی ہر صدا سے مکرتے چلے چلو
تم فکرِ حیدری ہو حسینی شعور ہو
تم نسبتِ نبی سے گرجتے چلے چلو
ساگر بجھے چراغ پہ تحریرِ روشنی
اپنے قلم کی دھار سے کرتے چلے چلو

39