توڑ دے تیشۂ فرہاد سے دیوانوں کی طرح
حوصلہ ہم بھی یہاں رکھتے ہیں چٹانوں کی طرح
میں نے دیکھے ہیں کئی خواب لرزنے والے
بین آنکھوں میں کیے جاتے ہیں طوفانوں کی طرح
شمع جب پیار کی جلتی ہوئی دکھتی ہے ہمیں
آ ہی جاتے ہیں یوں اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح
خود کو کہتے ہیں خدا اچھے بھلے لوگ یہاں
جو ذرا کام نبھاتے نہیں انسانوں کی طرح
جب بھی ملتے ہیں ہمیں چند گھڑی ملتے ہیں
پیش آتے ہیں رفاقت سے وہ مہمانوں کی طرح
فاصلے ان سے بڑھے اور بڑھاتے ہی گئے
منہ کو اب پھیر لیا کرتے ہیں انجانوں کی طرح
آستینوں میں چھپے سانپ بھی دکھ جاتے ہیں
پر وہ جو زہر پلائیں ہمیں انسانوں کی طرح
شاخِ گل جب نہ رہی میری محبت تجھ سے
ہم نے رکھی ہے وہی نیم بھی گلدانوں کی طرح
شرطِ آزادی ہمیں مار گئی یوں ساگر
ہم پرندے بہ قفس ہو گئے زندانوں کی طرح

0
4