چاہت کی گلی مجھ کو بلاتی ہے ابھی بھی
رستہ کوئی پرچھائی دکھاتی ہے ابھی بھی
آنکھوں میں سمندر کی لہر پھوٹ رہی ہے
اک موج قیامت کی رلاتی ہے ابھی بھی
یوں مجھ کو ملیں داسیاں کتنی مرے من کی
رادھا ہی مگر کرشن کو بھاتی ہے ابھی بھی
تصویر بنائی ہے مصور نے ادھوری
کاجل کی پرت آنکھ میں آتی ہے ابھی بھی
دل جس نے بنایا ہے مرا تیشۂ فرہاد
وہ کوہِ گراں سر پہ گراتی ہے ابھی بھی
باغوں میں ہے تتلی کا مسلسل یہی گریہ
وہ زلفِ پریشاں کو سجاتی ہے ابھی بھی
اب حالتِ بیداری ہوئی کرب کی صورت
خوابوں سے مجھے کون جگاتی ہے ابھی بھی
یہ بات الگ ہے کہ ہے لڑنے کا ہنر بھی
گر روٹھ میں جاؤں تو مناتی ہے ابھی بھی
اس جھیل کا پانی اسی خوشبو سے ہے تازہ
اس دل کی پری اس میں نہاتی ہے ابھی بھی

0
3