جو یہاں سے کبھی وہاں ہو گئے |
ہم تو منزل سے بے نشاں ہو گئے |
دیکھ سکتے ہیں چھو نہیں سکتے |
جیسے ہم دونوں آسماں ہو گئے |
اتنے مارے گئے مجھے پتھر |
اب تو دردوں کا ہم سماں ہو گئے |
نبض ہاتھوں میں ان کے رکھتے ہی |
میرے سب غم رواں دواں ہو گئے |
مجھ کو تنہائیوں میں رمز ملا |
راز مرشد کے سب عیاں ہو گئے |
ایک اللہ اور فرشتوں کے بیچ |
نامہ بر پردوں سے رساں ہو گئے |
دیکھ میرا یہ عالمِ سقراط |
صدیوں کی لمبی داستاں ہو گئے |
معلومات