جو یہاں سے کبھی وہاں ہو گئے
ہم تو منزل سے بے نشاں ہو گئے
دیکھ سکتے ہیں چھو نہیں سکتے
جیسے ہم دونوں آسماں ہو گئے
اتنے مارے گئے مجھے پتھر
اب تو دردوں کا ہم سماں ہو گئے
نبض ہاتھوں میں ان کے رکھتے ہی
میرے سب غم رواں دواں ہو گئے
مجھ کو تنہائیوں میں رمز ملا
راز مرشد کے سب عیاں ہو گئے
ایک اللہ اور فرشتوں کے بیچ
نامہ بر پردوں سے رساں ہو گئے
دیکھ میرا یہ عالمِ سقراط
صدیوں کی لمبی داستاں ہو گئے

42