وصال و ہجر کا صدمہ نہیں سہا جاتا
ترے بغیر تو اک پل نہیں رہا جاتا
کماں کو کھینچ کے رکھتی ہیں پر کشش آنکھیں
یہ تیر سینۂ بسمل میں ہے اٹھا جاتا
حسیں ہے کوئی بلا کا کہ سامنے اس کے
زباں ہلے بھی کیا کچھ نہیں کہا جاتا
عدو یہ وار اگر روبرو مرے کرتا
وفائے گیر پہ تیری سرِ وفا جاتا
زباں سے اپنی نہ کہتا بھلے سوا اس کے
منانے کے لیے مجھ کو دیا جلا جاتا
بھلے زمانے کی بولے زباں اسے کہنا
اداس دل کو مرے وہ صدا سنا جاتا
کہیں تو ابرِ کرم ہو نصیب یہ ساگر
کہ ہم سے موسمِ صحرا نہیں سہا جاتا

4
42
السالام علیکم
عزیز بھائی
پہلا مصرع وصال و ہجر کا صدمہ۔۔۔۔۔۔
کیا یہ تزاد نہیں؟
میں اس کو سمجھ نہیں پایا، کیا آپ تھوڈا بتائیں گے تاکہ میرا تزبزب دور ہو شکریہ۔

0
وصال و ہجر کا صدمہ مطلب کہ کسی بھی حالت میں تم سے دوری ہو وہ نہیں سہی جاتی۔۔ گویا جب وصال ہے تم سے وہ پل بھی ایسے ہے کہ جیسے جدائی ہو۔۔۔ جبھی دونوں کو اک ساتھ باندھا ہے وصال و ہجر کا صدمہ نہیں سہا جاتا۔۔

0
ںلک صاحب - وصال و ہجر دو الگ الگ چیزیں ہیں انکا صدمہ نہیں ہوتا - ہجر کا ہوتا ہے اگر وصال کا بھی صدمہ ہو تو یہ ایک استثنائی صورت ہوتی ہے جو شاعر کو اپنے شعر میں بتانی پڑتی ہے کہ ایسا کیوں ہے - آپ خود سے یہ مطلب سمجھیں کہ مجھے وصال میں بھی صدمہ ہے گویا جب وصال ہو تو وہ پل بھی ایسے ہیں جیسے کی جدائی تو یہ آپ کے اندر ہی ہے شعر میں نہیں ہے - ایسی کسی تشریح کے بغیر وصال و ہجر کا صدمہ لکھنا غلط ہے -

0
چلے میں اس مصرعے پہ مزید غور کر کے تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ بہت شکریہ ارشد بھائی آپ کا۔

0