| یوں شوقِ ترکِ بسر کائنات کرتا میں |
| جو تجھ سے ملتا کبھی کوئی بات کرتا میں |
| تمام اپنے شب و روز تجھ کو ہی پاتا |
| کبھی میں دن تو کبھی تجھ کو رات کرتا میں |
| سجا کے اپنے کسی زندگی کے لمحے میں |
| حسین اپنی یہ خوئے حیات کرتا میں |
| میں تیری زلف کے دامن کا پھول ہو جاتا |
| خزائے وحشی سے اپنی نجات کرتا میں |
| جو میری اور بڑھاتا تو ہاتھ کو اپنے |
| تمام جان و جگر تیرے ہاتھ کرتا میں |
معلومات