یوں شوقِ ترکِ بسر کائنات کرتا میں
جو تجھ سے ملتا کبھی کوئی بات کرتا میں
تمام اپنے شب و روز تجھ کو ہی پاتا
کبھی میں دن تو کبھی تجھ کو رات کرتا میں
سجا کے اپنے کسی زندگی کے لمحے میں
حسین اپنی یہ خوئے حیات کرتا میں
میں تیری زلف کے دامن کا پھول ہو جاتا
خزائے وحشی سے اپنی نجات کرتا میں
جو میری اور بڑھاتا تو ہاتھ کو اپنے
تمام جان و جگر تیرے ہاتھ کرتا میں

0
7