لیلیٰ کو ہیر مجنوں کو مجنون کر دیا |
اس عاشقی نے عاشقوں کا خون کر دیا |
امیدِ سحر عہدِ وفا خواہشِ طلب |
ہر شے کو اپنے آپ پہ ممنون کر دیا |
دل سنگ و خشت بھی ہوا پھر موم بھی ہوا |
پھر قہر و ظلم و زیست کا قانون کر دیا |
رہتی تھی مجھ میں حسرتِ آوارہ کی تھکان |
تیرے سفر کی خاک نے مدفون کر دیا |
آنکھوں سے سنگِ آنسو برستے رہے مرے |
عمرِ رواں کو کرب کا مضمون کر دیا |
افلاکِ دہر سے نہ سرِ خاک سے ملی |
حسنِ وفا کو دولتِ قارون کر دیا |
رہبر کو رہزنوں نے دکھائی تھی رہگزر |
منزل سے دور لوٹ کے مطعون کر دیا |
ہجرِ رواں میں بھی تھی تمہاری ہی جستجو |
تونے کہ گوشہ گیر کو مفتون کر دیا |
محسوس ہوتے ہی نہ تھے پیروں کے آبلے |
ساگر جنوں نے کیسا یہ افسون کر دیا |
معلومات