لیلیٰ کو ہیر مجنوں کو مجنون کر دیا
اس عاشقی نے عاشقوں کا خون کر دیا
امیدِ سحر عہدِ وفا خواہشِ طلب
ہر شے کو اپنے آپ پہ ممنون کر دیا
دل سنگ و خشت بھی ہوا پھر موم بھی ہوا
پھر قہر و ظلم و زیست کا قانون کر دیا
رہتی تھی مجھ میں حسرتِ آوارہ کی تھکان
تیرے سفر کی خاک نے مدفون کر دیا
آنکھوں سے سنگِ آنسو برستے رہے مرے
عمرِ رواں کو کرب کا مضمون کر دیا
افلاکِ دہر سے نہ سرِ خاک سے ملی
حسنِ وفا کو دولتِ قارون کر دیا
رہبر کو رہزنوں نے دکھائی تھی رہگزر
منزل سے دور لوٹ کے مطعون کر دیا
ہجرِ رواں میں بھی تھی تمہاری ہی جستجو
تونے کہ گوشہ گیر کو مفتون کر دیا
محسوس ہوتے ہی نہ تھے پیروں کے آبلے
ساگر جنوں نے کیسا یہ افسون کر دیا

54