تشنگی کے عذاب میں تم تھی
جلوۂ بے حجاب میں تم تھی
تیری زلفوں کو چھو رہا تھا میں
کل کی شب میرے خواب میں تم تھی
میں نے دیکھا کبھی جو آئینہ
عکس کے ماہتاب میں تم تھی
مے جو اتری تھی رات ہونٹوں سے
قطرہ قطرہ شراب میں تم تھی
میں نے رکھ دی چھپا کے جو سب سے
زندگی کی کتاب میں تم تھی
تم ہی تھی زندگی کی ہر تہذیب
عمر بھر کے نصاب میں تم تھی
کہہ دیا بے خودی میں تم کو خدا
سامنے جب حجاب میں تم تھی
چھو کے مجھ سے کہا فرشتے نے
دل کے ہر اضطراب میں تم تھی
جو بھی حالت تھی تیرے ساگر کی
روح کے انقلاب میں تم تھی

0
7