یوں پہن کر یہ قبا خاک میں گڑ جاؤں گا |
مثلِ شیشہ ہوں کہ پتھر سے بکھر جاؤں گا |
بے زباں لہجوں کی فریاد سنا تو دوں میں |
ایسے خاموش سے جنگل ہیں کہ ڈر جاؤں گا |
روزِ روشن ہیں سخن جن کے پیمبر ہیں وہ |
میں تو شاعر ہوں ابھی ہوں ابھی مر جاؤں گا |
تو وہ دیپک ہے جلائے گا کئی محفلوں کو |
میں تو اک دھوپ ہوں ہر شام اتر جاؤں گا |
اک کٹا ہاتھ ہے اک پاؤں ہے اور اک زنجیر |
ایسے میں آدھا ادھورا میں کدھر جاؤں گا |
مجھ کو اک خستہ سے تابوت میں کر دو درگور |
اب یہ ممکن نہیں ساگر کہ میں گھر جاؤں گا |
معلومات