یوں پہن کر یہ قبا خاک میں گڑ جاؤں گا
مثلِ شیشہ ہوں کہ پتھر سے بکھر جاؤں گا
بے زباں لہجوں کی فریاد سنا تو دوں میں
ایسے خاموش سے جنگل ہیں کہ ڈر جاؤں گا
روزِ روشن ہیں سخن جن کے پیمبر ہیں وہ
میں تو شاعر ہوں ابھی ہوں ابھی مر جاؤں گا
تو وہ دیپک ہے جلائے گا کئی محفلوں کو
میں تو اک دھوپ ہوں ہر شام اتر جاؤں گا
اک کٹا ہاتھ ہے اک پاؤں ہے اور اک زنجیر
ایسے میں آدھا ادھورا میں کدھر جاؤں گا
مجھ کو اک خستہ سے تابوت میں کر دو درگور
اب یہ ممکن نہیں ساگر کہ میں گھر جاؤں گا

32