میں نے دیکھا ہے بارہاں
تاریخ کے بے ترتیب دستر خوانوں پہ
شرابی قلموں سے بہکی ہوئی
چیدہ چیدہ تاریخ کو درباروں کی رعونت بنتے
پھر یہ بھی دیکھا کہ ہر تاریخ مٹ گئی
ہر تلوار ٹوٹ گئی ہر قلم خشک ہوا
چراغ مدھم پڑ گئے تفسیریں جل گئیں
دجلۂ و فرات بھر گئے
ہر جھوٹ کو ابدی موت ہوئی
مگر سچائی کا خنجر ہر دور میں چمکتا رہا
ہر یزید کا سینہ چاک ہوتا رہا
ہر قلبِ حسین پاک ہوتا رہا

3