| محبتوں میں سرِ جستجو نہیں دیکھا |
| جسے بھی دیکھا اسے خوبرو نہیں دیکھا |
| لہو کی پیاس نے لوگوں میں غل مچایا تھا |
| کسی کو میں نے لبِ آب جو نہیں دیکھا |
| ستارے چھپتے ہی بادل کی آڑ میں دیکھے |
| کسی کو روشنی میں تند خو نہیں دیکھا |
| یہ کس کا بارِ ہزیمت مجھے ستاتا ہے |
| ہے کون جس کو کبھی روبرو نہیں دیکھا |
| نشانہ پشت پہ میری لگایا تھا اس نے |
| وہ میرا دوست تھا یا پھر عدو نہیں دیکھا |
| حساب کون بھلا عاشقی میں رکھتا ہے |
| کہاں پہ کتتا بہا ہے لہو نہیں دیکھا |
| بھلا دے جو مرے ہر ایک درد کو ساگر |
| جہاں میں ہم نے تو ایسا سبو نہیں دیکھا |
معلومات