دل انہماکِ کفر میں کافر نہیں ہوا
بن بت تراش کے کوئی مندر نہیں ہوا
گنگا ندی میں تیاگ کے اپنے بدن کی راکھ
جب تک پیا نہ لہروں کو ساگر نہیں ہوا
سنگم نہیں ہے جب کسی اپنے سے بہر طور
پھر کوئی بھی مکان ہو وہ گھر نہیں ہوا
جب تک لٹا نہ زیست کا رختِ سفر کوئی
وہ آدمی کبھی بھی مسافر نہیں ہوا
سو سو بدل کے بھیس مرے سامنے رہا
چالاک شخص مجھ پہ جو ظاہر نہیں ہوا
کتنے ہی پی گیا ہو گا دریاؤں کا لہو
ایسے تو موج خیز سمندر نہیں ہوا
زخموں سے کرتے تھے مری وہ کیمیا گری
پھر بھی یہ دیکھ دل مرا پتھر نہیں ہوا
ساگر کہے خدائے سخن میر کو جہاں
جیسے کہ اس کے بعد تو شاعر نہیں ہوا

6