| بدن پہ زخمِ عنایت کا کچھ حساب نہیں |
| گرفتِ عشق میں ہونا بھی کم عذاب نہیں |
| حواس باختہ کو اس میں ہوش پھر نہ ملے |
| یہ دردِ جاناں ہے ساقی تری شراب نہیں |
| کہ جب کبھی ترا جی چاہے نام لکھ ڈالے |
| یہ دل ہے میرا خریدی ہوئی کتاب نہیں |
| نہیں۔۔ نہیں ہے یہ آساں اسے بھلا دینا |
| وہ ایک دور تھا لمحوں کا انتخاب نہیں |
| نکھرتا جاتا ہے عمرِ رواں کے ساتھ کہیں |
| یہ حسنِ عشق ہے ڈھلتا ہوا شباب نہیں |
| سرے سے اس کو میں خود کھینچ لیتا اپنی طرف |
| مگر کہ بیچ ہمارے کوئی طناب نہیں |
| ابھی نہ آزما تو میرے صبر کو ساگر |
| جنونِ ناتواں میں میرے آب و تاب نہیں |
معلومات