جذباتِ منتشر کی روانی میں بہہ گئے |
کچھ خواب میرے آنکھ کے پانی میں بہہ گئے |
شیریں بیاں زبان سے سن کر وہ داستاں |
پھر آج ان کی جھوٹی کہانی میں بہہ گئے |
سب بن گئے مگر وہ مسیحا نہ بن سکے |
میرے لیے جو ریشہ دوانی میں بہہ گئے |
پلکیں سکڑ گئیں ہیں ترے انتظار میں |
آنکھوں کے زخم لمحۂ فانی میں بہہ گئے |
چہرے پہ وہ شباب کی لہروں کا زور تھا |
بس اک نظر میں ان کی جوانی میں بہہ گئے |
مثلِ گلاب نطقِ کشیدہ تھی وہ زباں |
الفاظ کے فریب معانی میں بہہ گئے |
کتنے عظیم لوگ تھے وہ خانۂ بدوش |
جو ہجرتوں کی نقل مکانی میں بہہ گئے |
اب بھی وہ سوز و ساز ہیں کانوں میں گونجتے |
ساگر جو لب سے شعلہ بیانی میں بہہ گئے |
معلومات