| خیالِ زار میں میرے ابھر نہیں سکتے |
| جو میری سوچ کے پیمانے بھر نہیں سکتے |
| وجودِ روح میں شامل ہو جب انا کا نشہ |
| زباں سے ذائقے پھر یہ اتر نہیں سکتے |
| یہ عہدِ پر شکنی ہے کہ مر گئے ہیں ہمیں |
| وگرنہ میرے لیے آپ مر نہیں سکتے |
| عجب ہیں کوچۂ خم دار میرے یہ رستے |
| گزرنے والے یہاں سے گزر نہیں سکتے |
| فقط کہ آتی ہے ان کو مجسمہ سازی |
| کسی بھی بت میں مگر سانس بھر نہیں سکتے |
| بکھرنے کو بھی ہنر چاہیے کوئی ساگر |
| یہ میرے چاہنے والے بکھر نہیں سکتے |
معلومات