شکستہ شب میں تمہاری وحشت نے سر اٹھایا تو کیا کرو گے
تمہیں تمہارے ہی نیم خوابوں نے گر جگایا تو کیا کرو گے
پلک پلک سے چھلک رہی ہے مری اُداسی لہو کی صورت
مگر اداسی کی بارشوں نے تمہیں رلایا تو کیا کرو گے
ہوائے ظلم و ستم نے میرا یہ خستہ گھر تو گرا دیا ہے
انہی ہواؤں نے گر تمہارا دیا بجھایا تو کیا کرو گے
فراقِ وحشت سے تنگ ہو کر پلٹ بھی آؤ اے میرے ہمدم
دیارِ الفت میں چلتے چلتے مجھے نہ پایا تو کیا کرو گے
ہماری حالت پہ مسکرا کر تَو چل دیے ہو مگر اے جاناں
کوئی تمہاری جو بے بسی پر یوں مسکرایا تو کیا کرو گے
قفس پہ چلمن رکھی ہوئی ہے ذہن میں الجھن پڑی ہوئی ہے
مگر پرندوں کو جب جنوں نے رہا کرایا تو کیا کرو گے
چلو یہ مانا کہ مَیں بھی تیرا اسیرِ زلفِ بلا ہُوں لیکن
کبھی جو قدرت نے میرا دامن اگر چُھڑایا تَو کیا کرو گے
مجھے تَو ساگر نکال پھینکا ہے زندگی کی حقیقتوں سے
تمہیں بھی لمحوں کی تیز رَو نے اگر بہایا تو کیا کرو گے

98