| پیار تم کو دکھا نہیں سکتا |
| صرف میں گنگنا نہیں سکتا |
| کتنا مجبور و خود پرست ہوں میں |
| تم کو غم میں ہنسا نہیں سکتا |
| تیری خاطر ہوں دور تم سے پیا |
| جانتا ہوں کہ پا نہیں سکتا |
| رنگ چہرے پہ آ ہی جاتا ہے |
| پیار کو میں چھپا نہیں سکتا |
| کام لیتا ہوں در گزر کے ساتھ |
| میں کوئی دل دکھا نہیں سکتا |
| کھا تو سکتا ہوں سنگ لوگوں سے |
| تیری قیمت گھٹا نہیں سکتا |
| بھول سکتا ہوں خود کو اک لمحہ |
| تجھ کو لیکن بھلا نہیں سکتا |
| وہ عمارت کہ جو شکستہ ہو |
| اس عمارت کو ڈھا نہیں سکتا |
| تیری یادوں کا قہر ڈھاتی ہیں |
| بارشوں میں نہا نہیں سکتا |
| جبر والوں سے دشمنی ہے مری |
| ہاتھ ان سے ملا نہیں سکتا |
| دل تمنا سے کٹ رہا ہے مرا |
| اور تم کو بھلا نہیں سکتا |
| بحر و لنگر بھلے ہوں ہاتھ مرے |
| اپنی کشتی بچا نہیں سکتا |
| آ کے ساگر پہ میں لبِ جو بھی |
| پیاس اپنی بجھا نہیں سکتا |
معلومات