| اشکِ برہم سے میں نے دیکھی تھی ساروں کی حد |
| کم عدو سے نہیں تھی میرے بھی پیاروں کی حد |
| اس لیے بھی میں الجھتا ہی رہا تھا اس سے |
| دیکھنی تھی مجھے نفرت کے شراروں کی حد |
| محورِ جستجو تھا دیر تلک آسماں پر |
| ڈھونڈنی تھی مجھے کل رات ستاروں کی حد |
| تیری وسعت کے تغافل میں اترنے کے لیے |
| میں نے کھوجی تھی سمندر کے کناروں کی حد |
| ایک تنکے کی طرح مجھ کو بہا کے لے گئے |
| ٹھہر پائی نہیں طوفاں کے اشاروں کی حد |
| چاندنی کب یہ بہاروں کو شفق دیتی ہے |
| صرف پھلتی ہے خزاؤں میں چناروں کی حد |
| جسم کتنے ہی یہاں عشق میں چنوائے گئے |
| ایک دیوار پہ روتی ہے دراروں کی حد |
| ماتمی جلسے یہی کہہ کے گزر جاتے ہیں |
| ختم ہوتی ہی نہیں نیزہ سواروں کی حد |
| گھپ اندھیرے تو کبھی ہجر کی سولی ساگر |
| قسمتوں میں رہ گئی صرف یہ غاروں کی حد |
معلومات