نغمۂ درد کی روداد لیے پھرتے ہیں
شاعری کیا ہے کہ فریاد لیے پھرتے ہیں
ہم کہ تسکینِ جنوں کے لئے ہاتھوں میں فقط
جا بجا تیشۂ فرہاد لیے پھرتے ہیں
رقص کرتے ہوئے احساس نے دیکھا ہے مجھے
کس طرح ہم دِلِ برباد لیے پھرتے ہیں
ہائے کیا کہئے کہ ہم چشمِ تمنا میں فقط
صورتِ یار پری زاد لیے پھرتے ہیں
دل تو بیراگیوں کے شہر کا باشندہ ہے
تیرے پاگل اسے ناشاد لیے پھرتے ہیں
اپنے شانوں پہ وہ خم دار سے گیسو یاروں
شہر با شہر میں آزاد لیے پھرتے ہیں
لاکھ بہتر ہے کہ کٹ جائیں پرندوں کے پر
جال ہاتھوں میں جو صیاد لیے پھرتے ہیں !
جو ہوا کھائے ترے شہر خموشاں کی تَو پھر
دلِ مضطر میں تری یاد لیے پھرتے ہیں
حال ناصح یہ کہاں جانتے ہیں ساگر کا
بس نصیحت کے یہ ارشاد لیے پھرتے ہیں

34