آنکھیں لہو لہو ہیں جدائی کے داغ سے |
گھر اب کہ ہے جلا مرا گھر کے چراغ سے |
راتیں خزاں کی اور ہے برساتوں کا ہنر |
بوڑھے شجر کو پیار ہے اس اجڑے باغ سے |
ہوتا نہیں ہے اس لیے بھی ٹھیک میرا کام |
لیتا ہوں کام دل کا میں ہائے دماغ سے |
سنگینئ سحر سے میں ہر شب بہل گیا |
ہر بار پھر پلٹ گیا تیرے فراغ سے |
تیرے نشاں کو ڈھونڈتے آخر میں تھک گیا |
بھاگے ہوئے ہیں تیرے ستارے سراغ سے |
لمحہ شراب و مے کشی میں سانس تھم گئی |
خوشبو کبھی جو لیتے تھے گل کے ایاغ سے |
وہ مسندِ رقیب پہ بیراج ما ہوئے |
ساگر خبر ملی ہے یہ اہلِ بلاغ سے |
معلومات