آنکھیں لہو لہو ہیں جدائی کے داغ سے
گھر اب کہ ہے جلا مرا گھر کے چراغ سے
راتیں خزاں کی اور ہے برساتوں کا ہنر
بوڑھے شجر کو پیار ہے اس اجڑے باغ سے
ہوتا نہیں ہے اس لیے بھی ٹھیک میرا کام
لیتا ہوں کام دل کا میں ہائے دماغ سے
سنگینئ سحر سے میں ہر شب بہل گیا
ہر بار پھر پلٹ گیا تیرے فراغ سے
تیرے نشاں کو ڈھونڈتے آخر میں تھک گیا
بھاگے ہوئے ہیں تیرے ستارے سراغ سے
لمحہ شراب و مے کشی میں سانس تھم گئی
خوشبو کبھی جو لیتے تھے گل کے ایاغ سے
وہ مسندِ رقیب پہ بیراج ما ہوئے
ساگر خبر ملی ہے یہ اہلِ بلاغ سے

193