| بسترِ خواب سے پھر خود کو جگایا جائے |
| آ ذرا دردِ سفر خود کو تھکایا جائے |
| کچھ اسی واسطے ہم کو ہیں عطا یہ آنکھیں |
| غمزدو سیلِ سرِ اشک بہایا جائے |
| گھونسلہ ہم جو بناتے رہے چن کر تنکے |
| کیسے اب گھر کے کبوتر کو اڑایا جائے |
| عشقِ گل ہے سو گریزاں ہیں مسلنے سے انہیں |
| یہ ثمر شاخِ شجر سے نہ اٹھایا جائے |
| بے اثر اس پہ ہے قیمت کا لگانا یارو |
| کیسے ہیرے کو تجوری سے چرایا جائے |
| پائے زنجیر سے نکلے ہیں سو خم گردن تک |
| سوئے بازار سے اب کھینچ کے لایا جائے |
| کتنی ویراں ہے سحر نکلے جو زنداں سے ہم |
| اب تو جگنو کو سرِ راہ بلایا جائے |
| آئے اک بار محبت کے جو اس گھیرے میں |
| پھر نکلنا بھی وہ چاہے تو نہ جایا جائے |
| کہہ کے حسرت سے فرشتوں کو یہ سویا ساگر |
| جلد اب مجھ کو مرے رب سے ملایا جائے |
معلومات